بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ تقریبا دو ہزار چھ سات کی بات ہے ۔ میں اور میرے ایک دوست سیالکوٹ سے واپس آرہے تھے ۔ یہ ہمارا زمانہ طالبعلمی تھا ۔ دراصل ہم اپنے کالج کے اختتام پر گھر واپس آ رہے تھے ۔ جب گاڑی چائنا چوک پہنچی تو کنڈکٹر نے آکر کرایہ طلب کیا ۔میرے دوست کا نام علی اسلام ہے ۔ وہ ایک انتہائی سیدھاسادھا ، جسمانی اعتبار سے کمزور اور دبلا
پتلا لڑکا تھا ۔ اس کے باوجود وہ انتہائی جرات مند اور نڈر ثابت ہوا۔ کنڈکٹر کے کرائے کے مطالبے پر علی کا جواب انتہائی نامناسب تھا ۔ جبکہ ڈاکٹر نے کرائے کا مطالبہ کیا تو وہ کہنے لگے کہ ہم طالب علم ہے اور طالب علم کرایہ ادا نہیں کرتے ۔ کنڈکٹر بہت غصے میں تھا ۔وہ میرے دوستوں سے کہنے لگا میری آنکھوں میں دیکھو تمہیں کیا نظر آتا ہے ۔ جوابا محترم علی صاحب کہنے لگے کہ تم کیا دکھانے کی کوشش کر رہے ہو ۔ یہ بات سنتے ہی کنڈیکٹر نے علی کو اس کے گریبان سے پکڑنا اور جھنجھوڑنا شروع کردیا۔ میں بھی ان کے ساتھ بائیں جانب سیٹ پر بیٹھا تھا اور اس دوران میں کنڈکٹر سے بار بار کہہ رہا تھا کہ جناب میں آپ کو کرایہ ادا کر دیتا ہوں اپنا بھی اور اپنے دوست کا بھی ۔ لیکن وہ تھا کہ سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا اور اس نے اسی دوران علی کو ایک تھپڑ رسید کیا ۔ کنڈکٹر کی یہ حرکت انتہائی ہمیں ناگوار گزری اور اس کے بدلے میں ہم نے اس کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ۔
پتلا لڑکا تھا ۔ اس کے باوجود وہ انتہائی جرات مند اور نڈر ثابت ہوا۔ کنڈکٹر کے کرائے کے مطالبے پر علی کا جواب انتہائی نامناسب تھا ۔ جبکہ ڈاکٹر نے کرائے کا مطالبہ کیا تو وہ کہنے لگے کہ ہم طالب علم ہے اور طالب علم کرایہ ادا نہیں کرتے ۔ کنڈکٹر بہت غصے میں تھا ۔وہ میرے دوستوں سے کہنے لگا میری آنکھوں میں دیکھو تمہیں کیا نظر آتا ہے ۔ جوابا محترم علی صاحب کہنے لگے کہ تم کیا دکھانے کی کوشش کر رہے ہو ۔ یہ بات سنتے ہی کنڈیکٹر نے علی کو اس کے گریبان سے پکڑنا اور جھنجھوڑنا شروع کردیا۔ میں بھی ان کے ساتھ بائیں جانب سیٹ پر بیٹھا تھا اور اس دوران میں کنڈکٹر سے بار بار کہہ رہا تھا کہ جناب میں آپ کو کرایہ ادا کر دیتا ہوں اپنا بھی اور اپنے دوست کا بھی ۔ لیکن وہ تھا کہ سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا اور اس نے اسی دوران علی کو ایک تھپڑ رسید کیا ۔ کنڈکٹر کی یہ حرکت انتہائی ہمیں ناگوار گزری اور اس کے بدلے میں ہم نے اس کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ۔
میرے پاس اس وقت نوکیا کا موبائل فون تھا ۔ ہم نے تھپڑ کھانے کے فورا بعد اپنے دوستوں کو کال کی اور ان سے اسلامیہ ڈگری کالج سمبڑیال کے سامنے پہنچنے کے لئے بولا ۔ ان دنوں میں ہم سب دوست ایک تنظیم کا حصہ تھے جس کا نام اسلامی جمعیت طلبہ ہوا کرتا تھا ۔ اس تنظیم کے علاوہ بھی ہم نے ایک الگ سے گروپ بنایا ہوا تھا ۔جس گروپ میں موجود لڑکے ہنگامی حالات میں مار کٹائی کرنے کے کام آیا کرتے تھے ۔
جب ہم کالج کے سامنے پہنچے اور گاڑی سے اترے تو وہ کنڈکٹر غائب ہو چکا تھا ۔ ہم نے دو چار پانچ منٹ کے لیے گاڑی کو روکے رکھا اسے تلاش کرتے رہے لیکن وہ ہمیں کہیں نہ ملا ۔ دراصل وہ گاڑی کی چھت پر سوار ہو چکا تھا اور وہاں چھپ گیا تھا ۔ ہمیں وہ نظر نہ آیا لیکن جب گاڑی چلنا شروع ہوئی تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور ہمیں اپنے ہاتھوں اور بازوؤں کے ساتھ نازیبا اشارے کرنے لگا ۔ ہم پہلے ہی غصے میں تھے اور اس کی ان حرکتوں نے ہمارے غصے کو مزید بڑھا دیا ۔
دراصل اس روز ہے اس بندے کی شامت آئی ہوئی تھی اور اس نے مار کھانے کا پکا ارادہ کیا ۔ تقریبا کوئی پانچ منٹ کے بعدشالیمار ایکسپریس جو سیالکوٹ سے پنڈی جاتی تھی وہ ہمارے کالج کے سامنے پہنچی ۔ ہم نے اس گاڑی کو روکا اور اس پر سوار ہو کہ منڈی سمبڑیال جہاں پے اڈا ہے وہاں پہنچ گئے ۔ ان دنوں میں اسٹیشن کے سامنے جو گلا ہے وہاں پر چونگی ہوا کرتی تھی اور اس جگہ پر آج کل تاج سینٹر بن چکا ہے ۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہ آدمی اس وقت مسافروں کو آوازیں دے دے کر اپنی گاڑی میں بٹھانے میں مصروف تھا۔ ہم تقریبا چھ سات لڑکے تھے ۔ ہمارے ساتھ اویس عقیل شہید صاحب بھی تھے ۔ انہوں نے اس کنڈیکٹرسے پوچھا کہ کیا تم نے اس لڑکے کو تھپڑ مارے ہیں ۔ جوابا وہ آدمی کہنے لگا ہاں مارے ہیں اور میں آئندہ بھی ماروں گا ۔ اس بات پر اویس بھائی نے اپنا جوتا اتارا اور اس کنڈیکٹر کے سر پر مارنا شروع کر دیا ۔ میں تھوڑا پیچھے ہٹ کے کھڑا ہو گیا اور یہ سارا منظر دیکھنے لگا ۔ مجھے دلی طور پر بہت دکھ ہو رہا تھا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ پھر اویس بھائی نے اس کنڈکٹر کو روڈ کے اوپر مرغا بنا کر کان پکڑوا دیئے ۔ مجھے میرے دوست ان دنوں میں حافظ صاحب کہا کرتے تھے ۔ علی، اویس بھائی سے کہنے لگا کہ اس آدمی نے حافظ بھائی سے ہزار روپے لیے ہیں وہ بھی اس سے واپس وصول کیے جائیں ۔
اویس بھائی نے مجھ سے پوچھا کیا واقعی اس نے آپ سے پیسے لیے ہیں ۔ تو میں نے جواب دیا نہیں جناب انہوں نے مجھ سے پیسے نہیں لئے لیکن انہوں نے علی بھائی کو تھپڑ مارے ہیں ۔ حالانکہ کے میں ان کو کرایہ ادا کرنے کے لیے رقم بھی نکال چکا تھا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بدلے میں اب ان کو بھی مار کھانا پڑ رہی ہے ۔
Comments
Post a Comment