السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آج میں گوجر خان گیا تھا ۔ کل رات مجھے ایک دوست کی فون کال رسیو ہوئی ۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہمارے ایک پروفیسر صاحب ہیں جن سے کل ملاقات کا شیڈول فکس ہوا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہمارے ساتھ روانہ ہو ں۔ کیونکہ گزشتہ کافی عرصے سے میں بھی ان سے ملاقات کا آرزو مند تھا لہذا موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے ساتھ جانے کے لیے حامی بھر لی ۔ روانگی کا وقت صبح سات بجے طے پایا لیکن ہمارے ایک دوست کی تاخیر سے آمد کی وجہ سے ہم ساڑھے سات بجے روانہ ہوئے ۔ سفر انتہائی شاندار رہا ۔ پہلے ہمارے ایک دوست بوٹا صاحب ہمارے ساتھ قافلے کا حصہ بنے جنہیں ہم نے بشیر سویٹ ہاؤس کے سامنے سے اپنی گاڑی میں سوار کیا ۔ اس کے بعد ہم لوگ گجرات پہنچے جہاں سے ایک اور دوست جنھیں ڈار صاحب کہا جاتا ہے وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئے ۔ گجرات سے نکلتے ہوئے ہم لوگ لالہ موسی ہوتے ہوئے کھاریاں پہنچے ۔ اور تقریبا کوئی بیس کلو میٹر فاصلہ مزید طے کرنے کے بعد سلیمانیہ ہوٹل سے ہم نے ناشتہ کیا ۔ ناشتہ بہت مزے دار تھا ۔ میں نے تقریبا دو سے زیادہ پراٹھے کھانے کے بعد ایک کپ چائے بھی پیا ۔ جیسا کہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ میں ہر کھانے کو اپنا آخری کھانا سمجھ کر کھاتا ہوں ۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم لوگ اپنی منزل کی جانب ایک دفعہ پھر روانہ ہوگئے ۔ تقریبا ساڑھے بارہ بجے ہم لوگ گجرخان پہنچے جہاں پر کافی زیادہ لوگ پہلے سے پروفیسر صاحب سے ملاقات کی خاطر اکٹھے ہو چکے تھے ۔ پروفیسر صاحب تقریبا ڈھائی بجے گل پنیڑا کے مقام پر پہنچے ۔ وہاں پر تقریبا ایک سو کے قریب ملاقات کی خاطر لوگ جمع ہوئے تھے ۔ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک گھنٹے بعد پاکستان کے مایہ ناز گلوکار اور موسیقار عطااللہ خان عیسی خیلوی کی وہاں پر آمد ہوئی ۔ جو کہ کافی علیل محسوس ہو رہے تھے ۔ ہمیں ملاقات کرنے کا موقع کوئی تقریبا پانچ بجے کے بعد میسر آیا ۔ ہم سب دوستوں کو پروفیسر صاحب سے ملاقات کی خاطر کمرے میں بلایا گیا ۔ ہم سب لوگ وہاں پر بیٹھ گئے اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے ۔ پروفیسر احمد رفیق اختر ان پروفیسر صاحب کا نام تھا ۔ سب لوگ باری باری پروفیسر صاحب سے ملے اور اپنی اپنے احوال سے ان کو آگاہ کیا ۔ انہوں نے سب کے ساتھ انتہائی نفاست برا سلوک کیا ۔ مسکراتے ہوئے سب سے ملے ان کے احوال جانے اور سب کو اللہ کا ذکر کرنے کی تلقین کی ۔ میں اپنی باری پر پروفیسر صاحب سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا ۔ انہوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا اور کچھ ایسی باتیں کی جو میں سمجھتا ہوں کہ میرے علاوہ اور اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا تھا ۔ میں کافی حیران ہوا لیکن میں زیادہ دیر تک حیرانگی کی کیفیت کو برقرار نہ رکھ سکا ۔ پھر میں نے کچھ اور باتیں پروفیسر صاحب کے ساتھ کی لیکن ایک دفعہ پھر ان کے انکشافات کی وجہ سے میں کافی حیران ہوا ۔ انہوں نے مجھے صدقہ و خیرات کرنے کی تلقین کی اور ساتھ ساتھ اللہ کی تسبیحات بیان کرنے کے لیے مجھ پر زور دیا ۔ میں ان کا انتہائی مشکور و ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے اللہ کی تسبیحات کرنے کے لئے کچھ ذکر و اذکار بتائے ۔
اس ملاقات کے بعد ہم لوگ واپسی کیلئے روانہ ہوئے ہمارے ساتھ ایک دوست اور بھی شامل ہوگئے تھے جن کا تعلق پسرور سے تھا ۔ جہلم جب ہم پہنچے تھے تو وہاں پر ہم نے ان کو راولپنڈی سے نارووال جانے والی بس میں سوار کروا دیا ۔ پھر ہم ایک ہوٹل پر رکے جہاں ہم نے رات کا کھانا پیٹ بھر کر کھایا ۔ اور آپ کو بتاتا چلوں حسب عادت میں نے یہ کھانا بھی اپنا آخری کھانا سمجھ کر خوب مزے سے کھایا ۔ اس کے بعد تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ سفر کرنے کے بعد ہم بخیروعافیت اپنے اپنے گھر پہنچ گئے ۔ پچھلے سات ماہ سے ہم لوگ لاک ڈاؤن کی کیفیت سے دوچار ہیں ۔ آج کا سفر میرے لیے بہت ہی شاندار رہا ۔
دعاگو: پروفیسر محمد قاسم
Dated: 17-08-2020
Prof. Ahmed Rafique Akhtar
ReplyDelete(Man of the Century)
Alaa buhat Alaa
ReplyDeleteGood ebadt my he insan ki bhatare ha or zindagi ky hir din ko akhree din samj kir guzarana Chey u insan my takaber nahi ata Allah ham sab ko ache or nake zindagi guzarny ke tofeek ata frmay or ham sab pr rahm Kary ameen
ReplyDeleteLast khaney ka matlab b yehi he..... Live long.....
Delete👌👍
ReplyDeleteFantastic . ALAA BUHAT ALAA🖒👌
ReplyDeleteReally good👍👍👍
ReplyDelete👍👍👍
ReplyDelete